چیونٹیاں کھانے والے جانور پنگولین کو ’چیونٹی خور‘ بھی کہا جاتا ہے۔
ویب ڈیسک(9نیوز) ہری پور
جاسوسوں کی مدد سے گرفتار کیے جانے والے ان افراد پر تین لاکھ تیس ہزار روپے کا جرمانہ بھی عائد کیا گیا ہے۔
صوبہ خیبرپختونخوا کے محکمہ وائلڈ لائف نے جمعے کو ایبٹ آباد سے چار افراد کو نایاب جانور ’پینگولین‘ کی کھال کروڑوں روپے میں غیر قانونی طور پر فروخت کرنے پر گرفتار کر لیا۔
تاہم محکمے کے مطابق وائلڈ لائف ایکٹ 2015 میں بعض خامیوں کے سبب ایسے افراد نہ صرف بھاری جرمانوں سے بچ جاتے ہیں۔ بلکہ ان کی ضمانت بھی فوراً ہوجاتی ہے۔
باوجود اس حقیقت کے کہ کسی بھی جانور یا پرندے کی غیرقانونی فروخت کے عمل کو روکنے کے لیے محکمہ جنگلی حیات کو ایک انتہائی مشکل، پیچیدہ اور طویل حکمت عملی اختیار کرنی پڑتی ہے۔
چیف کنزرویٹر ڈاکٹر محسن فاروق نے میڈیا گروپ کو بتایا کہ ’ان چاروں افراد جن کا تعلق ضلع ہری پور اور ضلع مانسہرہ سے تھا، کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا ہے۔ تاہم مستقبل میں متعلقہ افراد کو دوبارہ اس غیرقانونی عمل سے روکنے کے لیے مانسہرہ اور ہری پور کے ذیلی محکموں کو ان پر نظر رکھنے کے احکامات جاری کر دیے گئے ہیں۔
وزیر ماحولیات و جنگلی حیات اشتیاق ارمڑ نے میڈیا کو بتایا کہ ’پانچ کروڑ روپے میں ایک کلو کھال کا سودا کرنے والے ماحول کو اربوں کا نقصان پہنچا رہے تھے۔ لیکن ہمارے فرض شناس افسران اور اہلکار دھرتی ماں کو بیچنے والے ان عناصر کا مسلسل راستہ روکے ہوئے ہیں۔
ضلع ایبٹ آباد ڈیویژنل فارسٹ آفیسر(ڈی ایف او) محمد ادریس نے جمعہ کی شام ہونے والی کارروائی سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے پولیس کی مدد سے سمگلرز کے قبضے سے کُل ایک کلو تین سو پچاس گرام کھال ضبط کر لی ہے۔ جس کو ان کا محکمہ فی الحال ٹرافی کے طور پر اپنے میوزیم میں رکھے گا اور بعدازاں اس کی نیلامی کرکے رقم کو ادارے کے لیے محفوظ کر دیا جائے گا
محمد ادریس نے کہا کہ ’اس تمام مرحلے سے گزر کر یہ افراد مزید محتاط اور ہوشیار ہوگئے ہوں گے۔
محکمہ جنگلی حیات خیبر پختونخوا کے مطابق، پاکستان میں پینگولین کی نسل معدومیت کے خطرے سے دوچار ہے اور یہ پاکستان کے صرف چند ایک علاقوں جیسے کہ ہری پور، بونیر، خان پور، راولپنڈی، اور جہلم میں پائی جاتی ہے۔
نیشنل جیوگرافک کے مطابق پینگولین دنیا میں سب سے زیادہ سمگل ہونے والا جانور ہے۔ بین الاقوامی مارکیٹ میں بیش بہا قیمت پر فروخت ہونے کی وجہ سے ہر سال ہزاروں پنگولین مار دیے جاتے ہیں۔
وائلڈ لائف ایکٹ 2015 کی بعض شقوں پر خود محکمہ جنگلی حیات کی جانب سے تنقید یہ ظاہر کرتی ہے کہ یہ قانون اس محکمے کےحقیقی مسائل کو حل کرنے میں پوری طرح کارآمد اور معاون ثابت نہیں ہورہا ہے۔
محکمے کے ضلعی دفاتر کی جانب سے اس میں ترامیم کی نشاندہی کے باوجود ’ریڈ ٹیپ ازم‘ کی شکار یہ فائلیں کئی سالوں سے صوبائی اسمبلی تک نہیں پہنچ سکیں۔
ڈی ایف او ایبٹ آباد محمد ادریس کے مطابق محکمہ وائلڈ لائف میں کام کرنے والوں کی اکثریت کم تنخواہوں پر دن رات چوکس ڈیوٹی سرانجام دیتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’شکاریوں اور سمگلرز کے اکثر اسلحہ سے لیس ہونے کے باوجود ہمارے اہلکار اپنی جانوں کی پرواہ کیے بغیر انہیں روکتے ہیں۔ اثر رسوخ رکھنے والے افراد کی جانب سے ان ملازمین کو اکثر ملازمت سے نکالنے اور ان کی ٹرانسفر کی دھمکیاں ملتی ہیں۔ لیکن دوسری جانب ایسے افراد کے حوالے سے قانون کی گرفت کمزور ہونے کی وجہ سے وہ فوراً بہت کم پیسوں کے عوض چھوٹ جاتے ہیں۔
ان کے مطابق ’وائلڈ لائف ایکٹ 2015 کے مطابق، جنگلی حیات کی غیر قانونی خرید وفروخت ایک قابل ضمانت جرم ہے جس کا جرمانہ زیادہ سے زیادہ ایک لاکھ تک ہے۔ نئی تجویز کردہ ترامیم کے مطابق، جرمانے کی حد ایک لاکھ سے بڑھاکر بعض شقوں کو ناقابل ضمانت قرار دینے کے ساتھ جیل کی سزا بھی تجویز کی گئی ہے۔
نیشنل جیوگرافک کی ایک رپورٹ کے مطابق اگرچہ ابھی تک ایسے طبی شواہد موجود نہیں ہیں کہ پینگولین کی کھال یا دیگر جسمانی اعضا انسانی بیماریوں کا تدارک کر سکتے ہیں لیکن اس کے باوجود دنیا کے بعض ممالک جیسے کہ چین، گھانا، ویت نام ودیگر اس کا ادویات میں استعمال کرتے ہیں۔
اس کی کھال فیشن اور ملبوسات میں بھی استعمال ہوتی ہے۔ بعض ممالک جیسے کہ افریقہ میں پنگولین کو سکھا کر اس کو روحانی عبادات میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔