420

کیمپ جیل لاہور کے باہر خاص طور پر پھانسی کے تختے بنائے گئے تھے۔ ایک اندازے کے مطابق پانچ لاکھ افراد پھانسی کا یہ منظر دیکھنے امڈ آئے

پاکستان کی تاریخ میں کسی ماں نے جنرل ضیاء الحق جیسا شیر پھر کبھی نہیں جنا.

ویب ڈیسک (9نیوز) اسلام آباد

لیفٹیننٹ جنرل(ر) فیض علی چشتی کہتے ہیں کہ 1977 کے آخری دنوں کی بات ہے مارشل لاء کے نفاذ کو چند ماہ گزارے تھے، معمول کے مطابق جب میں دفتر گیا اور اخبارات دیکھنا شروع کیے تو وہاں مخصوص خبروں کی نشاندہی کی گئی تھی، ایک خبر پر سرخ دائرہ لگا ہوا تھا۔ اس خبر کے مطابق گلبرگ لاہور کے تاجر احمد داؤد کے اکلوتے کمسن بیٹے اعجاز عرف پپو کو اغوا کر کے زیادتی کے بعد قتل کیا گیا تھا۔ میں نے اسی وقت جنرل ضیاء کو جی ایچ کیو میں ٹیلیفون کیا اور ان سے دریافت کیا کہ سر! آپ نے اخبار دیکھا؟ ان کا جواب نفی میں تھا، میں اخبارات لے کر جی ایچ کیو میں ان کے دفتر پہنچ گیا اور ان سے کہا کہ مارشل لاء کے دوران بچے کا اغوا اور قتل مقام افسوس ہے، اس طرح عوام کا اعتماد اٹھ جائے گا۔ جنرل ضیاء الحق نے میرے سامنے ہی پنجاب کے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر لیفٹیننٹ جنرل محمد اقبال کو ہدایات جاری کیں کہ مجرموں کو فوری پکڑا جائے چنانچہ پولیس حرکت میں آئی، تفتیش شروع ہوئی تو گھر کا ڈرائیور ہی مجرم نکلا، جس نے 18 دسمبر 1977ء کو اپنے پانچ ساتھیوں کے ساتھ بچے کو اغوا کیا تھا۔ گرفتاری کے بعد ملزموں کا فوجی عدالت میں مقدمہ چلا اور فوری فیصلہ سنایا گیا جس میں تین مجرموں کو سزائے موت اور تین کو قید کی سزا سنائی گئی۔ مجرموں کو نشان عبرت بنانے کے لیے ملکی تاریخ میں پہلی بار سرعام پھانسی کا فیصلہ کیا گیا جس کے لیے 23 مارچ 1978ء کی تاریخ مقررکی گئی۔ کیمپ جیل لاہور کے باہر خاص طور پر پھانسی کے تختے بنائے گئے تھے۔ ایک اندازے کے مطابق پانچ لاکھ افراد پھانسی کا یہ منظر دیکھنے امڈ آئے۔ شام کے پانچ بجے مجرموں کو پھانسی دے دی گئی لیکن ان کی لاشیں لٹکتی رہیں اور ان کو شام کا اندھیرا ہونے کے بعد اتارا گیا۔ اس سزا کا نتیجہ یہ ہوا کہ مارشل لاء کے دور میں اس نوعیت کا واقعہ پھر کبھی پیش نہیں آیا
پھانسی کے وقت جنرل ضیاء الحق شہید کے تاریخی الفاظ یہ تھے
“انصاف وہی ہوتا ہے جو فوری ہو”

9news
Follow
Spread the love

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں