قومی اسمبلی میں وقفہ سوالات کے دوران بتایا گیا کہ کابینہ کے ارکان اور وزیر اعظم کے مشیران اور معاونین خصوصی کو ماہانہ 4 لاکھ 48 ہزار روپے بطور بنیادی تنخواہ ادائیگی کی جا رہی ہے، انہیں ایک لگثری سرکاری گھر یا پھر ماہانہ ایک لاکھ 3 ہزار روپے بطور کرایہ ادا کیے جا رہے ہیں۔ سرکاری دوروں کےدوران انہیں 3 ہزار یومیہ الاؤنس الگ سے ادا کیا جاتا ہے۔
انہیں ذاتی اور خاندان کے استعمال کے لیے الگ الگ گاڑی بمعہ سیکیورٹی اور پروٹول کی گاڑیوں ملتی ہیں۔ جن کا فیول اور دیگر اخراجات سرکاری خزانے سے ادا کیے جاتے ہیں۔ ہر ایک کو اس کے سرکاری یا پرائیوٹ گھر میں چار اے سی، ہیٹرز اور ٹیلی فون کے غیر معینہ بل کی سہولت بھی سرکاری خزانے سے دی جا رہی ہے۔
اس وقت عمران خان کی کاینہ میں 25 وفاقی وزرا، 6 وزرائے مملکت،6 وزیر اعظم کے مشیر اور 11 وزیر اعظم کے معاونین خصوصی یہ مراعات حاصل کر رہے ہیں۔ یوں سرکاری خزانے سے لکثری مراعات پانے والے ان افراد کی کل تعداد 48 ہے۔
ان میں سے شہزاد ارباب، عثمان ڈار، نعیم الحق، افتخار درانی، شہزاد اکبر، ذولفی بخاری، شہزاد قاسم، علی نواز اعوان، یوسف بیگ مرزا، ندیم بابر، ظفر اللہ مرزا اور ندیم افضل چن کو سرکاری خزانے سے یہ مراعات صرف اور صرف عمران خان سے دوستی یا تحریک انصاف کی سیاسی سرگرمیوں کے لیے ادا کیے جا رہے ہیں۔
20 رکنی کابینہ کا دعویٰ کرنے والے عمران خان کا جہاں یہ ایک اور بڑا یو ٹرن ہے، وہیں اپنے ذاتی دوستوں اور پارٹی ورکرز کو غریب عوام کے ٹیکسوں پر عیش کرانا بھی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے؟