473

مُہلک کرونا وائرس اور پردیسیوں کی مشکلات

مُہلک کرونا وائرس اور پردیسیوں کی مشکلات

نامہ نگار: بشارت محمود رانا

عالمی سطح پر پھیلی کرونا وائرس نامی مُہلک وبائی بیماری نے جہاں اب تک تقریباً 4 ملین کے قریب انسانوں کی جان لی ہے، تو وہیں پوری دنیا سے وہ لوگ جو اپنے آبائی ممالک کو چھوڑ کر روزگار کی غرض سے دوسرے ممالک میں مقیم ہیں، مجموعی طور پر دیکھا جائے تو اُنہیں کرونا وائرس کی وبا کے دوران سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ آج میں اپنے اس کالم کے ذریعے اسے تفصیلاً بیان کرنے کی پوری کوشش کروں گا۔

چونکہ! عالمی سطح پہ پھیلی یہ کرونا وائرس نامی مُہلک وبائی بیماری پہلی ایسی مُہلک وبا یا بیماری نہیں ہے جس سے لاکھوں کی تعداد میں لوگ لقمہ اَجل بن گئے ہوں۔

اگر دنیائے اِنسانی کی تاریخ کو دیکھا جائے تو اس سے پہلے بھی بہت سی بیماریاں اور وبائیں آتی رہیں ہیں جن میں لاکھوں بلکہ کچھ میں تو کروڑوں کی تعداد میں بھی لوگوں کی جانیں جا چُکی ہیں۔ اُن میں سے چند بڑی وبائیں مندرجہ ذیل ہیں۔

ایک: بلیک ڈیتھ (بوبونک طاعون) نامی وبائی بیماری جس نے 1346ء سے 1353ء تک یوروشیا، شمالی افریقہ اور یورپ کو اپنی لپیٹ میں لیا تھا اور جِس نے تقریباً 200 ملین لوگوں کو نِگل لیا تھا۔

دو: سمال پاکس نامی وبائی بیماری جو 1520ء سے اب تک چلی آ رہی ہے، اِس سے تقریباً 56 ملین لوگ اب تک جان کی بازی ہار چکے ہیں، لیکن اس میں مرنے والوں کی 90% تعداد کا تعلق

امریکہ سے اور 1800ء کے دوران 4 لاکھ افراد کا تعلق یورپ سے تھا۔

تین: سپینش فلو نامی وبائی بیماری جسے انفلوئنزا کے نام سے بھی جانا جاتا ہے فروری 1918ء سے اپریل 1920ء تک کے دوران اس کی چار لہروں نے تقریباً 50 ملین لوگوں کو اپنا شکار بنایا۔

۔ چار: ایچ آئی وی/ ایڈز نامی بیماری جو 1981ء سے لے کے اب تک چلی آ رہی ہے، پوری دنیا سے اب تک تقریباً 30 سے 35 ملین لوگوں کی جان لے چکی ہے

اِن کے علاوہ اور بھی بہت سی وبائیں ایسی تھیں جن میں لاکھوں انسانوں کی جان چلی گئی۔

چونکہ! کرونا وائرس ایک ایسی وبائی بیماری ہے جس کے جراثیم ہوا کے ذریعے بھی دوسروں تک منتقل ہوتے ہیں۔

اِسی وجہ سے بھی اِس نے پوری دنیا کے تقریباً تمام ممالک کو آپس میں ایک دوسرے سے تعلق منقطع کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ تو تمام ممالک کی آپس میں اِسی قطع تعلقی کی وجہ سے اپنے آبائی وطنوں کو چھوڑ کر دوسرے ممالک میں روزگار کی غرض سے گئے ہوئے لوگ سب سے زیادہ مشکلات کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔

جہاں اب اس جدید ٹیکنالوجی کی دنیا میں مہینوں کے سفر ہوائی جہازوں کے زریعے گھنٹوں میں طے کئے جا رہے تھے۔

وہیں اب اِن ہوائی جہازوں کی سروس میں بندش کی وجہ سے پوری دنیا میں موجود بہت سارے پردیسی مشکلات میں گِھرے ہوئے ہیں۔ اگر کوئی چھٹیاں گزارنے کی خاطر اپنے آبائی ملک گیا ہوا تھا تو وہ وہاں پھنس کے رہ گیا ہے اور اگر کوئی غیر ممالک میں موجود ہے، تو وہ اپنی فیملی اور گھر والوں سے اِتنا عرصہ دور رہنے کے بعد انہیں ملنے کو بے چین نظر آتا ہے۔

اِسی حوالے سے کئی بار خبریں بھی سُننے میں آتی رہیں ہیں کہ کہیں ایک فیملی میں سے اس فیملی کا سربراہ کسی ایمر جنسی کی وجہ سے جِسے اپنے آبائی ملک جانا پڑا تھا اور ہوائی جہازوں کی سروس میں بندش کی وجہ سے وہ واپس نہیں آ سک رہا، اسی طرح کہیں کوئی زوجہ اپنے خاوند کے انتظار میں ہے اور کوئی خاوند اپنی زوجہ کے انتظار میں، تو کہیں بچے اپنے والدین سے ملنے کو بے قرار اور کہیں تعلیم کے حصول کے لئے غیر ممالک میں گئے ہوئے کچھ طالب علم اپنے سکول، کالجوں اور یونیورسٹیوں سے دوری پہ پریشان نظر آتے ہیں۔

اور پھر پوری دنیا میں کئی نجی و سرکاری کمپنیوں میں کام کرنے والے اہم ملازمین و عہدے داران جو اپنی کسی نہ کسی مجبوری کی وجہ سے ایمر جنسی کی چھٹی پہ اپنے آبائی ملک گئے تھے۔ لیکن پھر ہوائی جہازوں کی سروس کی معطلی کے سبب وہ بھی پھنس کے رہ گئے ہیں۔ تو اب وہ کمپنیاں بھی اپنے اُن ملازمین کی واپسی اور دوسری جانب وہ ملازمین اپنی واپسی کی غرض سے ہوائی جہازوں کی پھر سے سروس بحالی کے انتظار میں ہیں۔

اب اگر اس کا دوسرا رُخ دیکھا جائے تو وہ یہ ہے کہ کرونا وائرس کے بُرے اثرات میں گِھری تمام ممالک کی بدحال معیشتوں کی وجہ سے پوری دنیا میں بہت سے پردیسیوں کو روزگار کے ملنے میں بھی بہت سی مشکلات درپیش ہیں۔

الغرض! کرونا وائرس کی اس وبا کے دوران پوری دنیا میں موجود تقریباً ہر پردیسی کسی نہ کسی حوالے سے مشکلات کا شکار دکھائی دیتا ہے۔

میرے مطابق! یہ مُہلک کرونا وائرس کی وبا پوری دنیا میں بسنے والے پردیسیوں کے لئے باقی تمام انسانوں سے بڑھ کے خطرناک ثابت ہوئی ہے۔

اور آخر میں! اب میں اِس دعا کے ساتھ اپنی اس تحریر کا اختتام کروں گا کہ اللہ تعالٰی اپنی عظمت و کِبریائی کے صدقے اِس مُہلک کرونا وائرس نامی وبائی بیماری سے جتنی جلدی ہو سکے پوری دنیا کو چُھٹکارا نصیب فرمائے اور ہر کسی کو سُکھ کا سانس نصیب ہو۔ آمین ثم آمین

واخر دعونا أن الحمدللّٰہ رب العالمین

9news
Follow
Spread the love

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں