
شریف ہائی کورٹ
میں بحثیت عوام یہ مطالبہ کرتی ہوں کہ لاہور ہائی کورٹ کا نام تبدیل کر کے شریف ہائی کورٹ رکھا جائے تاکہ عوام کو کسی قسم کا کوئی ابہام نہ رہ جائے اور روز روز ہماری دل آزاری نہ ہو۔
لاہور ہائی کورٹ کا ریکارڈ دیکھیں ، اور بتائیں کہ کتنی بار عدالت نے عام آدمی کیلئے اتنی سہولت فراہم کی ہے ؟ گھر بیٹھے ملزموں کو ضمانت قبل از گرفتاری دی؟ ایک ڈاکو کو ضمانت پر رہائی دینے کیلئے دوسرے ڈاکو سے گارنٹی لی ہے ؟؟ آپ کو ایسی مثال شاید ہی کبھی ملی ہو، لیکن یہ تمام سہولیات شریف خاندان کو لاہور ہائی کورٹ نے بارہا فراہم کی ۔
نواز شریف کا نام ای سی ایل سے غیر مشروط طور پر نکالنے کی سماعت میں لاہور ہائی کورٹ کے ایک ایک نقطے سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ ان شریفوں کی سہولت کار ہے ۔
کیا میرے ملک میں ایک عام سزا یافتہ مجرم کو یہ سہولیات دستیاب ہیں ؟
نہیں یہ سوال تو توہینِ عدالت کے زمرے میں آتا ہے ۔ لیکن قانون کے یہ رکھوالے جو آئے روز عوام کی توہین کرتے ہیں، اس توہین پر ان کا احتساب کرنے والا کوئی نہیں ۔
میرے بھائی کو پولیس نے سیاسی پشت پناہی کو وجہ سے مجموعی طور پر 93 روز حبسِ بجا میں رکھا ۔ ایک شخص جس کا ایک جرم میں دور دور تک کوئی کردار نہ ہو اسے غیرقانونی طور پر کسٹڈی میں رکھا جائے ، اس پر تشدد کیا جائے ، تو اس وقت اس کی اور اس کے خاندان کے شب و روز کس اذیت میں گزرے ہوں گے ؟
تو جب پاکستان میں بڑے بڑے مجرموں کو عدالت ایسے رعایت فراہم کر کہ ہم جیسے شہریوں کے زخموں پر نمک چھڑکتی ہے ۔ توہین کرتی ہے ہماری نیشنلیٹی کی، ہمارے حق کی ۔
اور غضب تو یہ کہ انصاف کا نظام ایک سیاہ بند چوراہے جیسا ہے ، جس میں انصاف کے رکھوالے منہ زور ہیں ، اور اگر ان کی کارکردگی پر سوال اٹھایا جائے تو توہینِ عدالت کی بلیک میلنگ سے سوال اٹھانے والے کی زبان سی دی جاتی ہے ۔ گھٹن زدہ کالا عدالتی نظام ۔
حکومت بے شک لاہور ہائی کورٹ کے آج کے فیصلے کا احترام کرے لیکن میں ایسے امتیازی قانون اور کالے نظام کو ترویج دینے والی عدالتوں کا بالکل احترام نہیں کرسکتی ۔
پاکستان میں جنگل کا قانون قائم رکھنے والی عدالتیں آپ خود انصاف اور قانون کی توہین ہیں ۔