
کچھ دن پہلے جے یو آئی کے حافظ حمد اللہ نے کسی ٹاک شو میں بولا کہ وزیراعظم عمران خان کا پاکستان کو ریاستِ مدینہ بنانے کی بات کرنا صرف ایک مذہب کارڈ کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے، پاکستانی سیاست میں واحد وزیراعظم ہے جس نے دوسرے سیاستدانوں سے ہٹ کر اس ملک کے لیے اپنا نظریہ پیش کیا،جس کی خواہش ہے کہ پاکستان کو ریاستِ مدینہ کی طرز پر لے کر چلا جاۓ جو کہ یقیناً ایک بہترین خواہش ہے،
مخالفین کی طرف سے مسلسل وزیراعظم کی اس بات پر اعتراض کیا جا رہا ہے جیسا کہ حافظ حمد اللہ نے بھی کیا،اپنے آپ کو مذہبی جماعت کہلانے والوں کی طرف سے ایسا اعتراض ہونا نہیں چاہیے تھا بلکہ ان کو اس اعلان پر خوش ہو کر ساتھ دینا چاہیے تھا مگر اس اعتراض سے واضح ہوتا ہے کہ ان کے صرف اور صرف اپنے ذاتی مقاصد ہیں جو ان کو عزیز ہیں،اسی طرح بہت سے لوگ یہ اعتراض بھی کر رہے ہیں کہ کہاں ہے ریاستِ مدینہ،اب تک کیوں نہیں بنی؟
وزیراعظم عمران خان نے اعلان کیا اور اس کے لیے یقیناً اپنی پھرپور کوشش بھی کر رہے ہیں مگر جب تک عوام کا اپنا کردار اور عمل اس میں شامل نہیں ہوگا اس وقت تک یہ مشکل کام ہے۔
ریاستِ مدینہ کی تشکیل میں مدینہ کے ہر فرد نے اپنا کردار ادا کیا،
ہماری بھی یہ ذمہ داری ہے کہ ہم اپنا کردار ادا کریں، اپنے آپ کو درست کر کے،اپنے کام سے مخلص ہو کر۔
ہم خود ایک دوسرے کو نقصان پہنچاتے ہیں،دھوکہ دیتے ہیں،حق تلفیاں کرتے ہیں،دوسروں کا مال ناجائز طریقے سے دبا جاتے ہیں اور پھر اعتراض کرتے ہیں کہ اب تک پاکستان ریاستِ مدینہ کیوں نہیں بنا؟
اس اعتراض کے بجاۓ ہمیں اس بات پر خوش ہونا چاہیے کہ کسی لیڈر نے تو پاکستان کہ حوالے سے اپنا نظریہ پیش کیا،سب سے بڑھ کر یہ کہ اعتراض کے بجاۓ ہر فرد کو خود کو ٹھیک کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ ہم بھی پاکستان کو ریاستِ مدینہ بنانے میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔
ہمارا بہترین کردار ہی پاکستان کو ریاستِ مدینہ بنانے میں اہم ہوگا۔
تو آئیں آج سے کوشش کریں کہ ہم نے پاکستان کو ریاستِ مدینہ کی طرز پر بنانا ہے،ابتداء خود سے کرنی ہے کیونکہ ہر فرد کی درستگی کا عمل ہی ایک بہترین معاشرے کی عکاسی کرتا ہے۔